Sunday, 7 September 2014

احمد فراز


عشق بس ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے ، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے ، یوں ہے
جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے ، نہ بروں ہے ، یوں ہے
تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خِرد ہے نہ جنوں ہے ، یوں ہے
اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے ، یوں ہے
تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پے اک قطرۂ خوں ہے ، یوں ہے
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے ، یوں ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے ، یوں ہے



زندگی یُوں تھی کہ جینے کا بہانہ تُو تھا

ہم فقط زیبِ حکایت تھے، فسانہ تُو تھا

ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں، وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے، زمانہ تُو تھا

اب کے کچھ دل ہی نہ مانا کہ پلٹ کر آتے
ورنہ ہم دربدروں کا تو ٹھکانہ تُو تھا

یار و اغیار کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں فرازؔ
اور سب دیکھ رہے تھے کہ نشانہ تُو تھا

2 comments: