Saturday, 6 September 2014

میری طلب، مری رسوائیوں کے بعد کُھلا

میری طلب، مری رسوائیوں کے بعد کُھلا
وہ کم سُخن، سُخن آرائیوں کے بعد کُھلا​

وہ میرے ساتھ ہے اور مجھ سے ہمکلام بھی ہے
یہ ایک عُمر کی تنہائیوں کے بعد کُھلا​

میں خُود بھی تیرے اندھیروں پہ مُنکشف نہ ہوا
ترا وجود بھی پرچھائیوں کے بعد کُھلا​

عجب طلسمِ خموشی تھا گھر کا سناٹا
جو بام و دَر کی شناسائیوں کے بعد کُھلا​

میں آب و خاک سے مانُوس تھا، پر کیا کرتا
دَرِ قفس مری بینائیوں کے بعد کُھلا​

مجھے یہ جنگ بہرحال جیتنی تھی، مگر
نیا محاذ ہی پسپائیوں کے بعد کُھلا​

مجھے بھی تنگیِ آفاق کا گِلہ ہے سلیم
یہ بھید مجھ پہ بھی گہرائیوں کے بعد کُھلا​

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment