کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کو
اگر چہ گفتگو مبہم نہیں ہے
اگر چہ گفتگو مبہم نہیں ہے
سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے
یہ بستی ہے ستم پر ور دگاں کی
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
کنارا دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے
دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا
وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے
وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے
میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں
کوئی اس زخم کا مرحم نہیں ہے
کوئی اس زخم کا مرحم نہیں ہے
جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا
بجز اک بازگشتِ غم نہیں ہے
بجز اک بازگشتِ غم نہیں ہے
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment