Friday, 5 September 2014

کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کو
اگر چہ گفتگو مبہم نہیں ہے
سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے
یہ بستی ہے ستم پر ور دگاں کی
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
کنارا دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے
دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا
وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے
میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں
کوئی اس زخم کا مرحم نہیں ہے
جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا
بجز اک بازگشتِ غم نہیں ہے
امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment