Saturday, 6 September 2014

ساغر صدیقی


چراغِ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے 
ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے 

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے 
ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے 

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں 
انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا اندھیرا ہے 

بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری 
مجھے یقین دلاؤ! بڑا اندھیرا ہے 

بنامِ زہرہ جبینانِ خطۂ فردوس 
کسی کرن کو جگاؤ! بڑا اندھیرا ہے

۔ ۔ ۔ ساغر صدیقی۔ ۔ ۔


ﻣَﯿﮟ ﺗﻠﺨﺌﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﻏﻢ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﺍﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﺍﺗﻨﯽ ﺩﻗﯿﻖ ﺷﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﮯ
ﯾﺰﺩﺍﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﭼَﮭﻠﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺎﻡ، ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﺯُﻟﻒِ ﯾﺎﺭ
ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﺣﺎﺩﺛﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﻣَﯿﮟ ﺁﺩﻣﯽ ﮨُﻮﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ
ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺣﺎﺩﺛﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﮎ ﺩﺭﺩ ﻧﺎﮎ ﮔﯿﺖ
ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺣﺎﺩﺛﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺗﻮ ﺧﯿﺮ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﯿﮟ ﺍِﻥ ﺳﮯ ﮔِﻠﮧ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ
ﭘُﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺍﺭﺩﺍﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ
ﺳﺎﻏﺮ ﻭﮦ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﭘﯽ ﻟﯿﺠﺌﮯ ﺣُﻀﻮﺭ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﺰﺍﺭﺷﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﭘﯽ ﮔﯿﺎ


ساغر صدیقی




رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 
دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں 
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے 

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے 
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں 
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن 
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں 
پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے 
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 


کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں‌یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں‌تھا بہار سے پہلے
 

بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے 
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں 
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا 
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے 
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے

گُم صُم کھڑی ہیں‌دونوں جہاں کی حقیقتیں 
میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے

ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی 
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
 
 

محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی 
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا 

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی 
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑدیا 

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی 
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دَم توڑدیا 

آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ 
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑدیا 

جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی 
اُن محبّت کی روایات نے دم توڑدیا 

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی 
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا 

ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر 
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑدیا 

ایک وعدہ ہے کِسی کا جو وفا ہوتا نہیں 
ورنہ اِن تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں 
جی میں آتا ہے اُلٹ دیں اُنکے چہرے سے نقاب 
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں 
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جُھوم کر 
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں 
اب تو مدّت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے 
اب تو اُن کو طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں 
ہر شناور کو نہیں ملتا طلاتم سے خراج 
ہر سفینے کا محافظ نا خُدا ہوتا نہیں 
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی 
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں 
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر 
ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جُدا ہوتا نہیں 
بار ہا دیکھا ہے ساغر رہگزارِ عشق میں 
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
 

No comments:

Post a Comment