پیدائش | 24 نومبر 1952 کراچی, سندھ, پاکستان |
---|---|
وفات | 26 دسمبر 1994 (عمر 42 سال) اسلام آباد, پاکستان |
پیشہ | اردو شاعر |
قومیت | پاکستانی |
نژادیت | اردو |
تعلیم | ایم اے انگریزی ادب، بینک ایڈمنسٹریشن; پی ایچ ڈی |
صِنف | غزل; آزاد نظم |
نمایاں کام | خوشبو |
نمایاں اعزاز(ات) | صدارتی تمغہ حسن کارکردگی[1] آدم جی اعزاز |
زوج(ین) | سید نصیر علی |
اولاد | سید مراد علی |
امیرِ شہر سے سائل بڑا ہے
بہت نادار لیکن دل بڑا ہےلہو جمنے سے پہلے خون بہا دے
یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے
چٹانوں میں گھرا ہے اور چُپ ہے
سمندر سے کہیں ساحل بڑا ہے
کسی بستی میں ہو گی سچ کی حُرمت
ہمارے شہر میں باطل بڑا ہے
جو ظلّ اللہ پر ایمان لائے
وہی داناؤں میں عاقل بڑا ہے
اُسے کھو کر بہائے درد پائی
زیاں چھوٹا تھا اور حاصل بڑا ہے
پرو دیے مرے آنسو ہوا نے شاخوں میں
بھرم بہار کا باقی رہے نگاہوں میں
صبا تو کیا کہ مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی
کہاں کی نیند اُتر آئی ہے ان آنکھوں میں
کچھ اتنی تیز ہے سُرخی کہ دل دھڑکتا ہے
کچھ اور رنگ پسِ رنگ ہے گُلابوں میں
سپُردگی کا نشہ ٹوٹنے نہیں پاتا
انا سمائی ہوئی ہے وفا کی بانہوں میں
بدن پہ گرتی چلی جا رہی ہے خواب سی برف
خنک سپیدی گھُلی جا رہی ہے سانسوں میں
سیف الملوک سے!
شہزادے!
تو خوش قسمت تھاــــــــ!
جس خواب کی اُنگلی تھامےــــــــ
تو رستم و کئے *کی مٹی سے
سرکش دریاؤں تنگ نکیلی گھاٹیوں، سخت چٹانوں سے ہوتا ہوا
ساٹھ برس میںــــــــ
مغرور ہمالہ کی اس پتھّر چوٹی تک آ پہنچا تھا
اس خواب نے خود برسوں تیرا رستہ دیکھا
اور تیر ی سبز پری نے ـــــــ
پھر تیری پذیرائی اس شان سے کی
کہ اپنی مٹّی، اپنا پانیـــــــ
اور اپنی ہوا اور اپنی آگـــــــ
سب تیرے حوالے کر دی_____
ترے پاؤں کے سب چھالے شبنم انجام ہوئے
ترا ایک جنم _______ اور ایک سفر
منزل سے آکر گلے ملے
مرے سارے جنم اور سارے سفر
منزل سے پہلے اُجڑ گئے
مرے پاؤں ہمیشہ اُکھڑ گئے!
تم مجھ کو گُڑیا کہتے ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو ۔۔۔!!!
کھیلنے والے سب ہاتھوں کو میں گڑیا ہی لگتی ہوں
جو پہنا دو، مجھ پہ سجے گا
میرا کوئی رنگ نہیں
جس بّچے کے ہاتھ تھما دو
میری کسی سے جنگ نہیں
سوچتی جاگتی آنکھیں میری
جب چاہے بینائی لے لو
کُوک بھرو اور باتیں سن لو
یامیری گویائی لے لو
مانگ بھرو، سیندور لگاؤ
پیار کرو، آنکھوں میں بساؤ
اور جب دل بھر جائے تو
دل سے اُٹھا کے طاق پہ رکھ دو
تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو
بس اے بہار کے سورج! بڑھا یہ قہر کا رنگ
جلا گئی ہے تری دھوپ میرے شہر کا رنگ
شجر کو سبز قبا دیکھ کر یہ اُلجھن ہے
کہاں پہ رنگِ نمو ہے کہاں پہ زہر کا رنگ
کنارِ جوئے رواں جب سے قتل گاہ بنی
ہجوم اُمڈنے لگا دیکھنے کو نہر کا رنگ
ابھی تو میں نے سمندر میں ناؤ ڈالی تھی
یہ کیا ہُوا کہ بدلنے لگا ہے لہر کا رنگ
یہ احتجاج بجا ہے کہ تیز تھی بارش
یہ ماننا ہے کہ کچّا تھا اپنے شہر کا رنگ
گِلہ ہی کیا ہے اگر وہ بھی سبز چشم ہوا
طبیعتوں پہ تو چڑھتا رہا ہے دہر کا رنگ
وہ آج بھی مجھے سوتے میں ڈسنے آئے گا
وہ جانتا ہے کہ کھِلتا ہے مجھ پہ زہر کا رنگ
اُترنے پائے گا قوسِ قزح کا تھام کے ہاتھ
سوادِ حرف میں کب عشقِ بے سپہر کا رنگ
دُھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر
پھر بہار کے ساتھی آگئے ٹھکانوں پر
سُرخ سُرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر
جسم و جاں سے اُترے گی گرد پچھلے موسم کی
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر
ساری رات سوتے میں مُسکرا رہا تھا وہ
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے
چاندنی اُترتی ہے جب شریر جھرنوں پر
شہر کو تیری جستجو ہے بُہت
ان دنوں ہم پہ گفتگو ہے بُہت
جب سے پرواز کے شریک ملے
گھر بنانے کی آرزو ہے بُہت
درد رہ رہ کر سر اُٹھاتا ہے
کبھی کم ہو گیا، کبھو ہے بُہت
کچھ تو وہ یاد بھی بُہت آیا
کُچھ ان آنکھوں مین بھی لہو ہے بُہت
پینے والی نگاہ ہے درکار
آنکھ کو چاند کا سبو ہے بُہت
سُندر، کومل سپنوں کی بارات گزر گئی جاناں
دُھوپ آنکھوں تک آپہنچی ہے رات گزر گئی جاناں
بھور سمے تک جس نے ہمیں باہم اُلجھائے رکھا
وہ البیلی ریشم ایسی بات گزر گئی جاناں
سدا کی دیکھی رات ہمیں اس بار ملی تو چپکے سے
خالی ہاتھ پہ رکھ کے کیا سوغات گزر گئی جاناں
کس کونپل کی آس میں اب تک ویسے ہی سر سبا ہو تُم
اب تو دُھوپ کا موسم ہے برسات گُزر گئی جاناں
لوگ نجانے کن راتوں کی مرادیں مانگا کرتے ہیں
اپنی رات تو وہ جوتیرے ساتھ گزر گئی جاناں
اب تو فقط صیاد کی دلداری کا بہانہ ہے ورنہ
ہم کو دام میں لانے والی گھات گزر گئی جاناں
ترے آئینہ فن میں
سراپا دیکھ کر اپنا
بُہت حیران ہوں
اور ابر ہا پلکیں جھپکتی ہوں کہ یہ میں ہوں
(کہ کوئی اور لڑکی ہے )
میری آنکھوں میں پہلے بھی شرارت تھی
مگر اب تو ستارے کھِلکھلاتے ہیں
لیکن اب تو بے ضرورت مسکراتے ہیں
غرور یاسا کہاں کا آگیا دھیمے مزاجوں میں
کہ دن میں بھی اُڑی پھرتی ہوں خوابوں کی ہواؤں میں
مرے لہجے میں ایسی نرم فامی کب سے در آئی
کہ جس سے بات کرتی ہوں
سماعت پھول چُنتی ہے
ہنسی میں اُس کھنک کی گونج ہے
جس سے محبت گیت بُنتی ہے
اور ان سب سے سوا
دل کی گدازی
جو مجھ کم ظرف کو شائستہ ضبطِ الم کردے
کٹے دُشمن کی بھی انگلی تو میری آنکھ نم کر دے
چکھائے چشم پوشی
دوست کا پردہ رکھے
بلکہ
خلوصِ ہم رہاں کی آنکھوں سے ہمیشہ دیکھنا ہی
ترک کروا دے
لہو کے اعترافِ عشق پر ایمان لانے کی بصیرت دے
مجھے گو تم کے ہر اُپدیش عیٰسی کے ہر اک سرمن کا بین السّطر
سمجھا دے!
میں اُس کی خوشنما آنکھوں سے
دُنیا دیکھتی ہوں
مُسکرا کر سوچتی ہوں
زمیں یک لخت کتنی خوبصورت ہوگئی ہے!
بج اُٹھے ہوا کے دف وجد میں کلی آئی
زندگی کے میلے میں رقص کی گھڑی آئی
مین بھی کتنی بھولی تھی ایک لطفِ مبہم پر
رقص گہ میں گرگابی چھوڑ کر چلی آئی
چشم و دل کے سب آنسو اس ہوا میں کھِل اُٹھے
شاخسارِ مژگاں پر رُت گلاب کی آئی
شہر کے شگوفوں کے نیم رس سے اُکتا کر
تازگی سے ملنے کو بن میں تتیری آئی
اس سے قبل بھی سائے کب قریب آئے تھے
اس نئے سفر میں بھی کام دھوپ ہی آئی
No comments:
Post a Comment