شدّتِ اضطراب مانگے ہے
دل کوئی انقلاب مانگے ہے
ان کی جھکتی نظر سے ہے ظاہر
ان کی فطرت حجاب مانگے ہے
کون آآکے میرے خوابوں میں
اپنے حصّے کے خواب مانگے ہے
روح تسکینِ جان و دل کے لیے
ہم سے کارِ ثواب مانگے ہے
مجھ سے راغبؔ اداے جانِ غزل
دل نشیں انتساب مانگے ہے
شامِ غم کی نہیں سحر شاید
یوں ہی تڑپیں گے عمر بھر شاید
حالِ دل سے مِرے ہیں سب واقف
صرف تو ہی ہے بے خبر شاید
روز دیدار تیرا کرتا ہوں
تجھ کو حیرت ہو جان کر شاید
وہ بھی میرے لیے تڑپتے ہوں
ایسا ممکن نہیں مگر، شاید
شاخِ اُمّید سبز ہے اب تک
آ ہی جائے کوئی ثمر شاید
دل تو کر لے گا ضبطِ غم راغبؔ
ساتھ دے گی نہ چشمِ تر شاید
یوں ہی تڑپیں گے عمر بھر شاید
حالِ دل سے مِرے ہیں سب واقف
صرف تو ہی ہے بے خبر شاید
روز دیدار تیرا کرتا ہوں
تجھ کو حیرت ہو جان کر شاید
وہ بھی میرے لیے تڑپتے ہوں
ایسا ممکن نہیں مگر، شاید
شاخِ اُمّید سبز ہے اب تک
آ ہی جائے کوئی ثمر شاید
دل تو کر لے گا ضبطِ غم راغبؔ
ساتھ دے گی نہ چشمِ تر شاید
دل ہے بے بس تجھے بھلانے میں
بن تِرے کچھ نہیں زمانے میں
تخت اور تاج کھو دیے ہم نے
بزمِ شعر و سخن سجانے میں
پھوٹ پڑتے ہیں آنکھ سے آنسو
موڑ آتے ہیں وہ فسانے میں
کس نتیجے پر آپ پہنچے ہیں
کٹ گئی عمر آزمانے میں
درد و غم سے اگر ہو دل لبریز
خون جلتا ہے مسکرانے میں
چند تنکے ہیں تیری یادوں کے
کیا ہے اس دل کے آشیانے میں
کاش خود کو بھی دیکھتے راغبؔ
رہ گئے انگلیاں اٹھانے میں
چارہ گر چارہ ڈھونڈتا رہ جائے
درد ایسا کہ لا دوا رہ جائے
آرزو ہے کہ اب تِرے در پر
سر جھکا ہے تو پھر جھکا رہ جائے
رہ گذارِ غزل پہ تابندہ
اے خدا میرا نقشِ پا رہ جائے
آرزوئیں تمام مٹ جائیں
تجھ سے ملنے کا آسرا رہ جائے
یوں ہی سایہ فگن مرے مولیٰ
سر پہ ماں باپ کی دعا رہ جائے
عشق میں وہ کمال پیدا کر
حسن حیرت سے دیکھتا رہ جائے
اِک بڑی جنگ لڑ رہا ہوں میں
ہنس کے تجھ سے بچھڑ رہا ہوں میں
جیسے تم نے تو کچھ کیا ہی نہیں
سارے فتنے کی جڑ رہا ہوں میں
ایک تیرے لیے رفیقِ دل
اِک جہاں سے جھگڑ رہا ہوں میں
زندگانی مِری سنْور جاتی
گر سمجھتا بگڑ رہا ہوں میں
کس کی خاطر غزل کی چادر پر
گوہرِ فکر جڑ رہا ہوں میں
کوئی چشمہ کبھی تو پھوٹے گا
اپنی ایڑی رگڑ رہا ہوں میں
آپ اپنا حریف ہوں راغبؔ
آپ اپنے سے لڑ رہا ہوں میں
چشمِ تر کو زبان کر بیٹھے
حال دل کا بیان کر بیٹھے
تم نے رسماً مجھے سلام کیا
لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے
ایک پل بھی کہاں سکون ملا
آپ کو جب سے جان کر بیٹھے
پستیوں میں کبھی گرا ڈالا
اور کبھی آسمان کر بیٹھے
آس کی شمع ٹمٹماتی رہی
ہم کہاں ہار مان کر بیٹھے
ایک پل کا یقیں نہیں راغبؔ
اِک صدی کا پَلان کر بیٹھے
مضطرب آپ کے بِنا ہے جی
یہ محبّت بھی کیا بلا ہے جی
جی رہا ہوں میں کتنا گھُٹ گھُٹ کر
یہ مِرا جی ہی جانتا ہے جی
میرے سینے میں جو دھڑکتا ہے
میرا دل ہے کہ آپ کا ہے جی
آپ اُس کو بُرا سمجھتے ہیں
اپنا اپنا مشاہدا ہے جی
اتنے معصوم آپ مت بنئے
آپ لوگوں کو سب پتا ہے جی
کیا بتائوں کہ کتنی شدت سے
تم سے ملنے کو چاہتا ہے جی
چند یادیں ہیں چند سپنے ہیں
اپنے حصّے میں اور کیا ہے جی
اہلِ فرقت کی زندگی راغبؔ
زندگی ہے کہ اِک سزا ہے جی
وہ کہتے ہیں کہ آنکھوں میں مِری تصویر کس کی ہے
میں کہتا ہوں کہ روشن اِس قدر تقدیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ کس نے آپ کو روکا ہے جانے سے
میں کہتا ہوں کہ میرے پانو میں زنجیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ ہے انسان تو اِک خاک کا پُتلا
میں کہتا ہوں پر اتنی عظمت و توقیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ دل میں آپ نے کس کو بسایا ہے
میں کہتا ہوں کہ یہ دنیاے دل جاگیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ کس نے جا بجا لکھّا ہے میرا نام
میں کہتا ہوں شکستہ اِس قدر تحریر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سا سامع نہیں دیکھا
میں کہتا ہوں کہ اتنی پُر کشش تقریر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں تِرے شعروں میں ہے شوخی قیامت کی
میں کہتا ہوں خیال و فکر میں تنویر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ ہم ہیں دشمنانِ امن کے دشمن
میں کہتا ہوں کہ اُن کے ہاتھ میں شمشیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ راغبؔؔ تم نہیں رکھتے خیال اپنا
میں کہتا ہوں کہ ہر دم فکر دامن گیر کس کی ہ
میں کہتا ہوں کہ روشن اِس قدر تقدیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ کس نے آپ کو روکا ہے جانے سے
میں کہتا ہوں کہ میرے پانو میں زنجیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ ہے انسان تو اِک خاک کا پُتلا
میں کہتا ہوں پر اتنی عظمت و توقیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ دل میں آپ نے کس کو بسایا ہے
میں کہتا ہوں کہ یہ دنیاے دل جاگیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ کس نے جا بجا لکھّا ہے میرا نام
میں کہتا ہوں شکستہ اِس قدر تحریر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سا سامع نہیں دیکھا
میں کہتا ہوں کہ اتنی پُر کشش تقریر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں تِرے شعروں میں ہے شوخی قیامت کی
میں کہتا ہوں خیال و فکر میں تنویر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ ہم ہیں دشمنانِ امن کے دشمن
میں کہتا ہوں کہ اُن کے ہاتھ میں شمشیر کس کی ہے
وہ کہتے ہیں کہ راغبؔؔ تم نہیں رکھتے خیال اپنا
میں کہتا ہوں کہ ہر دم فکر دامن گیر کس کی ہ
ڈوب جانا ہی اُس کو تھا آخر
کچّی مٹّی کا تھا گھڑا آخر
ہم سے کیا ہو گئی خطا آخر
ساری دنیا ہے کیوں خفا آخر
کام آتی نہیں کوئی تدبیر
کیا ہے قسمت میں اے خدا آخر
تیری فرقت میں بھی دھڑکنے کا
کر لیا دل نے حوصلہ آخر
کس کی فرقت میں دل نڈھال ہوا
کون اتنا قریب تھا آخر
ہم نے کوشش ہزار کی راغبؔ
جو لکھا تھا وہی ہوا آخر
چاند تاروں سے دوستی ٹھہری
دل کے آنگن میں روشنی ٹھہری
سارے الزام آ گئے مجھ پر
اِک خطا بھی نہ آپ کی ٹھہری
میں کہ سادہ سا آدمی ٹھہرا
اور جنّت کی وہ پری ٹھہری
دل میں دریا ہے موج زن لیکن
میرے ہونٹوں پہ تشنگی ٹھہری
اُن سے بچھڑے تھے جس گھڑی راغبؔ
ہے ابھی تک وہیں گھڑی ٹھہری
کتنے دن اور کئی برس یوں ہی
کیا تڑپتے رہیں گے بس یوں ہی
ان کی رُسوائیوں پہ حیرت کیا
منھ کی کھاتے ہیں بوالہَوس یوں ہی
کم اُپجتی ہیں کام کی چیزیں
اُگتے رہتے ہیں خار و خس یوں ہی
ہم ہی کیا کیا گمان کر بیٹھے
اُس نے پوچھا تھا حال بس یوں ہی
چاہتے ہو کہ خونِ دل نہ جلے
فن پہ حاصل ہو دسترس یوں ہی
وقت آتے ہی توڑ دیتے ہیں
سارے رشتوں کو ہم نفَس یوں ہی
یوں ہی یاد آ گیا کوئی راغبؔ
اور آنکھیں گئیں برس یوں ہی
حال کہنا تھا دل کا بر موقع
وقت نے کب دیا مگر موقع
تم بہت سوچنے کے عادی ہو
تم گنْواتے رہو گے ہر موقع
حالِ دل تجھ سے کہہ نہ پائوں گا
مل بھی جائے کبھی اگر موقع
جانے کب ہاتھ سے نکل جائے
زندگی کا یہ مختصر موقع
موسمِ ہجر میں برسنا ہے
کم نہیں تم کو چشمِ تر موقع
تیرے آنے میں ہو گئی تاخیر
اب کہاں میرے چارہ گر موقع
لگ رہا ہے کہ مل نہ پائے گا
تم سے ملنے کا عمر بھر موقع
روز فتنہ کوئی اُٹھانے کا
ڈھونڈ لیتے ہیں فتنہ گر موقع
اہلِ دانش بھی اب کہاں راغبؔ
بات کرتے ہیں دیکھ کر موقع
No comments:
Post a Comment