Saturday, 6 September 2014

اِبنِ اِنشاؔ


لوگ ہلالِ شام سے بڑھ کر، پَل میں ماہِ تمام ہوئے
ہم ہر بُرج میں گَھٹتے گَھٹتے صُبح تلک گُمنام ہوئے
اُن لوگوں کی بات کرو جو عشق میں خُوش انجام ہوئے
نَجد میں قیس، یہاں پر اِنشؔا، خوار ہوئے، ناکام ہوئے
کِس کا چمکتا چہرہ لائیں کِس سُورج سے مانگیں دُھوپ
گَھور اندھیرا چھا جاتا ہے، خلوتِ دل میں شام ہوئے
ایک سے ایک جنُوں کا مارا، اِس بستی میں رہتا ہے
ایک ہمِیں ہشیار تھے یارو! ایک ہمِیں بدنام ہوئے
شوق کی آگ نفس کی گرمی گَھٹتے گَھٹتے سرد نہ ہو
چاہ کی راہ دِکھا کر تم تو وقفِ دریچہ و بام ہوئے
اُن سے بہار و باغ کی باتیں کر کے جی کو دُکھانا کیا
جن کو ایک زمانہ گُزرا کُنجِ قفس میں رام ہوئے
اِنشاؔ صاحب پَو پھٹتے ہی تارے ڈُوبے، صُبح ہوئی
بات تُمہاری مان کے ہم تو شب بھر بے آرام ہوئے
اِبنِ اِنشاؔ



سب مایا ہے، سب ڈھلتی پِھرتی چھایا ہے
اِس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
جو تُم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے
ہاں گاہے گاہے دِید کی دولت ہاتھ آئی
یا ایک وہ لذّت نام ہے جس کا رُسوائی
بس اِس کے سِوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے
سب مایا ہے
اِک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں
جب دیکھ لیا اِس سودے میں نُقصان نہیں
تب شمع پہ دینے جان پتنگہ آیا ہے
سب مایا ہے
معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قِصّہ بھی
سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ اِنشاؔ بھی
فرہاد بھی جو اِک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے
کیوں درد کے نامے لِکھتے لِکھتے رات کرو
جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو
اس نار سے کوئی ایک نے دھوکہ کھایا ہے
سب مایا ہے
جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لِکھیں
تم جانتے ہو ہم کیونکر اُس کا نام لکھیں
دل اُس کی بھی چوکھٹ چُوم کے واپس آیا ہے
سب مایا ہے
وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
وہ جس کی اَلھّڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اُس نے بھی پیغام یہی بِھجوایا ہے
سب مایا ہے
جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں
وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں
ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حُکم لگایا ہے
سب مایا ہے
جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دُور ایک کُٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لِکھوایا ہے
سب مایا ہے
اِبنِ اِنشاؔ



کل ہم نےسپنادیکھاہے

جو اپنا ہو نہیں سکتا ہے
اُس شخص کو اپنا دیکھا ہے
وہ شخص کہ جِس کی خاطر ہم
اِس دیس پِھریں، اُس دیس پِھریں
جوگی کا بنا کر بَھیس پِھریں
چاہت کے نِرالے گِیت لِکھیں
جی موہنے والے گِیت لِکھیں
دَھرتی کے مہکتے باغوں سے
کلیوں کی جھولی بَھر لائیں
اَمبر کے سجِیلے مَنڈل سے
تاروں کی ڈولی بَھر لائیں
ہاں کِس کے لیے، سب اُس کے لیے
وہ جِس کے لب پر ٹیسُو ہیں
وہ جس کے نیناں آہُو ہیں
جو خار بھی ہے اور خُوشبُو بھی
جو درد بھی ہے اور دارُو بھی
وہ اَلھّڑ سی، وہ چنچل سی
وہ شاعر سی، وہ پاگل سی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
ہم نام نہ اُس کا بتلائیں
اے دیکھنے والو! تُم نے بھی
اُس نار کی پِیت کی آنچوں میں
اِس دل کا تپنا دیکھا ہے
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
اِبنِ اِنشاؔ


دیکھ ہمارے ماتھے پر، یہ دَشتِ طلب کی دُھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناطہ، دیکھ ہمیں مت بُھول میاں
اہلِ وفا سے بات نہ کرنا، ہو گا ترا اصُول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمُول میاں
یُونہی تو نہیں دَشت میں پہنچے، یُونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پُھول میاں
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے، جگ میں ہوئے ہو رُسوا کبھی
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پُوچھیں، باقی بات فضُول میاں
نصب کریں محرابِ تمنّا، دیدہ و دل کو فرش کریں
سُنتے ہیں وہ کُوئے وفا میں آج کریں گے نزُول میاں
سُن تو لیا کسی نار کی خاطر، کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قِصّے کو، اب دیتے کیوں ہو طُول میاں
کھیلنے دو انہیں عشق کی بازی کھیلیں گے تو سیکھیں گے
قیس کی یا فرہاد کی خاطر، کھولیں کیا اسکول میاں
اب تو ہمیں منظُور ہے یہ بھی شہر سے نِکلیں، رُسوا ہوں
تُجھ کو دیکھا، باتیں کر لیں، محنت ہوئی وصُول میاں
اِنشاؔ جی کیا عُذر ہے تم کو نقد دل و جاں نذر کرو
رُوپ نگر کے ناکے پر، یہ لگتا ہے محصُول میاں
اِبنِ اِنشاؔ


ہم جنگل کے جوگی، ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں، کل اور نگر میں، صبح کہاں اور شام کہاں
ہم سے بھی پِیت کی بات کرو، کچھ ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پشیماں ہو بھی سکو گے، ہم کو یہاں پہ دوام کہاں
سانجھ سمے کچھ تارے نِکلے، پَل بھر چمکے، ڈُوب گئے
امبر امبر ڈُھونڈ رہا ہے اب اُنہیں ماہِ تمام کہاں
دل پہ جو بِیتے سِہہ لیتے ہیں اپنی زباں میں کہہ لیتے ہیں
اِنشاؔ جی ہم لوگ کہاں اور میؔر کا رنگِ کلام کہاں
اِبنِ اِنشا


کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا

کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تیرا
ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پُوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردا تیرا
اس شہر میں کِس سے مِلیں، ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا
کُوچے کو تیرے چھوڑ کے جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا
تُو باوفا، تُو مہرباں، ہم اور تُجھ سے بدگماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھہرا تیرا
بے شک اسی کا دوش ہے، کہتا نہیں خاموش ہے
تو آپ کر ایسی دوا، بیمار ہو اچھا تیرا
ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ اُفتادگی؟
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حُسنِ بے پروا تیرا
دو اَشک جانے کِس لیے، پلکوں پہ آ کر ٹِک گئے
الطاف کی بارش تیری، اکرام کا دریا تیرا
اے بے دریغ و بے اَماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تِری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا تیرا
ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگُزر
رَستہ کبھی روکا تیرا، دامن کبھی تھاما تیرا
ہاں ہاں تیری صُورت حسِیں، لیکن تُو اتنا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا تیرا
بے درد، سُنتی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رُسوا تیرا، شاعر تیرا، اِنشاؔ تیرا
اِبنِ اِنشاؔ

No comments:

Post a Comment