Friday, 5 September 2014

دن گزر گیا اعتبار میں


دن گزر گیا اعتبار میں
رات کٹ گئی انتظار میں

وہ مزا کہاں وصلِ یار میں
لطف جو ملا انتظار میں

اُن کی اِک نظر کام کر گئی
ہوش اب کہاں ہوشیار میں

میرے قبضے میں کائنات ہے
میں ہوں آپ کے اختیار میں

آنکھ تو اُٹھی پھول کی طرف
دل اُلجھ گیا حُسنِ خار میں

تجھ سے کیا کہیں کتنے غم سہے
ہم نے بیوفا تیرے پیار میں

فکرِ آشیاں ہر خزاں میں کی
آشیاں جلا ہر بہار میں

کس طرح یہ غم بھول جائیں ہم
وہ جدا ہوا اِس بہار میں


فنا نظامی کانپوری

No comments:

Post a Comment