ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے
لے جائے جذبِ شوق مرا اب جدھر مجھے
کیا جانیے قفس میں رہے کیا معاملہ
اب تک جو ہیں عزیز مرے بال و پر مجھے
دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغِ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
جگر مراد آبادی
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے
لے جائے جذبِ شوق مرا اب جدھر مجھے
کیا جانیے قفس میں رہے کیا معاملہ
اب تک جو ہیں عزیز مرے بال و پر مجھے
دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغِ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment