ادیب | ||
---|---|---|
پیدائشی نام | منیر | |
تخلص | منیر | |
ولادت | 1927ء ہوشیار پور مشرقی پنچاب | |
ابتدا | ساہی وال، پاکستان | |
وفات | 26 دسمبر 2006ء لاہور | |
اصناف ادب | شاعری | |
ذیلی اصناف | غزل، نظم | |
ادبی تحریک | ترقی پسند | |
تعداد تصانیف | 18 | |
تصنیف اول | بے وفا کا شہر | |
تصنیف آخر | کلیات منیر (مجموعہ) | |
معروف تصانیف | بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر |
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
قرار ہجر میں اس کے شراب میں نہ ملا
وہ رنگ اس گل رعنا کا خواب میں نہ ملا
عجب کشش تھی نظر پر سراب صحرا سے
گہر مگر وہ نظر کا اس آب میں نہ ملا
بس ایک ہجرت دائم گھروں زمینوں سے
نشان مرکز دل اضطراب میں نہ ملا
سفر میں دھوپ کا منظر تھا اور سائے کا اور
ملا جو مہر میں مجھ کو سحاب میں نہ ملا
ہوا نہ پیدا وہ شعلہ جو علم سے اٹھتا
یہ شہر مردہ صحیفوں کے باب میں نہ ملا
مکاں بنا نہ یہاں اس دیار شر میں منیر
یہ قصر شوق نگر کے عذاب میں نہ ملا
اُن سے نین ملا کے دیکھو
یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو
دوری میں کیا بھید چھپا ہے
اس کا کھوج لگا کے دیکھو
کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کے دیکھو
آج کی رات بہت کالی ہے
سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو
دل کا گھر سنسان پڑا ہے
دکھ کی دھوم مچا کے دیکھو
جاگ جاگ کر عمر کٹی ہے
نیند کے دوار سے جا کے دیکھو
وہ دل کی باتیں زمانے بھر کو یہ یوں سناتا ، مجھے بتاتا
وہ اک دفعہ تو میری محبت کو آزماتا ، مجھے بتاتا
زبانِ خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھ کو باور کرارہا ہے
کسی بہانے انا کی دیوار گراتا ، مجھے بتاتا
زمانے والوں کو کیا پڑی ہے سنیں جو حال دل شکستہ
مگر میری تو یہ آرزو تھی مجھے چلاتا ، مجھے بتاتا
مجھے خبر تھی کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں
میں اس کی راہ میں اپنے دل کا دیا جلاتا ، مجھے بتاتا
منیر اس نے ستم کیا کہ شہر چھوڑ دیا خامشی کے ساتھ
میں اس کی خاطر یہ دنیا چھوڑ جاتا ، مجھے بتاتا
وہ اک دفعہ تو میری محبت کو آزماتا ، مجھے بتاتا
زبانِ خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھ کو باور کرارہا ہے
کسی بہانے انا کی دیوار گراتا ، مجھے بتاتا
زمانے والوں کو کیا پڑی ہے سنیں جو حال دل شکستہ
مگر میری تو یہ آرزو تھی مجھے چلاتا ، مجھے بتاتا
مجھے خبر تھی کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں
میں اس کی راہ میں اپنے دل کا دیا جلاتا ، مجھے بتاتا
منیر اس نے ستم کیا کہ شہر چھوڑ دیا خامشی کے ساتھ
میں اس کی خاطر یہ دنیا چھوڑ جاتا ، مجھے بتاتا
محترم احباب آخری غزل ’’وہ دل باتیں زمانے بھر کو نہ یوں سناتا مجھے بتاتا‘‘ میرے استادِ محترم ڈاکٹر بدر منیر صاحب کی ہے ۔جو کئی جگہ نیٹ پر منیر نیازی یا محسن نقوی سے منسوب کر دی گئی ہے۔یہ غزل ڈاکٹر بدر منیر کے پہلے شعری مجموعے ’’ مجھے پلکیں جھپکنے دو‘‘ میں شامل ہے۔۔۔مرقومہ بالا غزل میں کئی غلطیاں ہیں درست متن کے لیے لنک وسٹ کریں۔۔۔
ReplyDeletehttps://www.facebook.com/photo.php?fbid=1096999360416028&set=a.125927310856576.23984.100003179223483&type=3&theater
خیر اندیش
رمیض نقوی