یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں، وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پِھر کہیں کے نہیں
وفا سرشت میں ہوتی، تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
ہوا کی گرم خرامی سے پڑ رہے ہیں بھنور
یہ پیچ و تاب کسی موجِ تِہ نشیں کے نہیں
یہ پیچ و تاب کسی موجِ تِہ نشیں کے نہیں
سُنا گیا ہے کہ اکثر قیام و ذکر و سجُود
ہیں جس کے نام اُسی جانِ آفریں کے نہیں
ہیں جس کے نام اُسی جانِ آفریں کے نہیں
تمام عمر پِھرے دربدر، کہ گھر ہو جائے
گھروں میں رہنا بھی تقدیر میں اُنہیں کے نہیں
گھروں میں رہنا بھی تقدیر میں اُنہیں کے نہیں
بِکھر رہے ہیں جو آنسُو بغیر منّتِ دوست
وہ دامنوں کی امانت ہیں، آستیں کے نہیں
وہ دامنوں کی امانت ہیں، آستیں کے نہیں
افتخارؔ عارف
زمانہ خُوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
چراغِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غُلام گردشوں میں ساری عُمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روش پہ اعتراض کر کے بھی
حصولِ جاہ کی روش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قیامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
بس اتنا ہو کہ شغلِ ناؤ نوش، مُستقل رہے
قلم کو سرنِگُوں کیا ہے، سر فراز کر کے بھی
قلم کو سرنِگُوں کیا ہے، سر فراز کر کے بھی
کُچھ اس طرح کے بھی چراغ شہرِ مصلحت میں تھے
بُجھے پڑے ہیں خُود ہوا سے سازباز کر کے بھی
بُجھے پڑے ہیں خُود ہوا سے سازباز کر کے بھی
بس ایک قدم پڑا تھا بے محل، سو آج تک
میں دربدر ہوں اہتمامِ رخت و ساز کر کے بھی
میں دربدر ہوں اہتمامِ رخت و ساز کر کے بھی
افتخارؔ عارف
No comments:
Post a Comment