طبیعت ان دنوں بیگانۂ ۔ ۔غم ۔ ۔ ۔ ہوتی جاتی ہے۔ ۔ ۔
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ، اے حُسنِ دو عالم! ۔ ۔ ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ۔ ۔ ۔ہوتی جاتی ہے
وہی میخانہ و صہبا، وہی ساغر،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی شیشہ
مگر آوازِ ۔ ۔ نوشا نوش مدھم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوتی جاتی ہے۔
وہی ہے شاہد و ساقی مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل بُجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن ۔ ۔ ۔ روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی۔ ۔ ۔ لیکن جگرؔ! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے۔ ۔ زندگی کم ہوتی جاتی ہے
جگرؔ مراد آبادی۔ ۔ ۔
No comments:
Post a Comment