Saturday, 6 September 2014

جگر مراد آبادی


طبیعت ان دنوں بیگانۂ ۔ ۔غم ۔ ۔ ۔ ہوتی جاتی ہے۔ ۔ ۔
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے

قیامت کیا یہ، اے حُسنِ دو عالم! ۔ ۔ ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ۔ ۔ ۔ہوتی جاتی ہے

وہی میخانہ و صہبا، وہی ساغر،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی شیشہ
مگر آوازِ ۔ ۔ نوشا نوش مدھم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوتی جاتی ہے۔ 

وہی ہے شاہد و ساقی مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل بُجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن ۔ ۔ ۔ روشنی کم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے زندگی۔ ۔ ۔ لیکن جگرؔ! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے۔ ۔ زندگی کم ہوتی جاتی ہے

جگرؔ مراد آبادی۔ ۔ ۔

No comments:

Post a Comment