ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے
میں دُور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے
مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے
لے جائے جذبِ شوق مرا اب جدھر مجھے
لے جائے جذبِ شوق مرا اب جدھر مجھے
ڈرتا ہوں جلوہء رُخِ جاناں کو دیکھ کر
اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے
اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے
یکساں ہے حسن و عشق کی سر مستیوں کا رنگ
ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے
ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے
مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سرِ نیاز
کرنا ہے آج قصہء غم مختصر مجھے
کرنا ہے آج قصہء غم مختصر مجھے
سینے سے دل عزیز ہے، دل سے ہو تم عزیز
سب سے مگر عزیز ہے میری نظر مجھے
سب سے مگر عزیز ہے میری نظر مجھے
میں دُور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لئے
تم پاس ہو، تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے
تم پاس ہو، تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے
کیا جانیے قفس میں رہے کیا معاملہ
اب تک جو ہیں عزیز مرے بال و پر مجھے
اب تک جو ہیں عزیز مرے بال و پر مجھے
دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغِ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment