قفس کا خوف، نشیمن کا احترام نہیں
جنوں کے بعد کسی کو خرد سے کا م نہیں
شکم نے دل کی حقیقت بھی کھول دی آخر
مقامِ رزق سے آگے کوئی مقام نہیں
اگر حیات ہے باقی تو کائنات بھی ہے
ہمی نہ ہوں تو کسی چیز کو دوام نہیں
بجائے بارِ عمل کیوں اُٹھائیں دستِ دُعا
مقابلہ ہے بشر سے، خدا سے کام نہیں
ہمیں بھی دانہ گندم نے کر دیا رُسوا
اگرچہ دہر میں جنت کا اہتمام نہیں
بیکار جو بیٹھا ہے تو کچھ کام ہی کر لے
تو دل پہ کوئی عشق کا الزام ہی دھر لے
آئیں گی ہر اک سمت سے بھنوروں کی صدائیں
اُس زُلف کی مہکار ذرا اور بکھر لے
ہر روز ملا کرتی نہیں حُسن کی دولت
پلکوں سے اُٹھاکر اسے جذبات میں بھر لے
مصروف ہیں اس دور میں جلوے بھی نظر میں
تو اپنے لئے اس کی گلی میں کوئی گھر لے
تھی جس کے حوالے سے تری بزم کی خوشبو
وہ شخص ہے تنہا کبھی اس کی بھی خبر لے
اظہار کے اسلوب قتیل اور بُہت ہیں
جب رو نہ سکے ہجر میں تب شاعری کر لے
بدن کے جام میں کھلتے گُلاب جیسی ہے
سُنا ہے اُس کی جوانی شراب جیسی ہے
کنول کنول ہے سراپا، غزل غزل چہرہ
وہ ہو بہو کِسی شاعر کے خواب جیسی ہے
اندھیرے دور کرے سب کی پارسائی کے
وہ ایک شکل کہ جو ماہتاب جیسی ہے
بغیر جام و سبو، چاند رات کی حالت
کِسی غریب کے عہدِ شباب جیسی ہے
نہ شاعری، نہ محبت، نہ جام، اے واعظ
یہ زندگی بھی تری اک عذاب جیسی ہے
قتیلؔ میں نے کیا پیار اک ستمگر سے
یہ وہ خطا ہے جو کارِ ثواب جیسی ہے
نگاہوں کا اثر کام آرہا ہے
کوئی اُڑتا ہوا جام آرہا ہے
خُدارا اپنے جلوؤں کی خبر لو
مری نیّت پہ الزام آ رہا ہے
پھر آنے کو ہیں دن رُسوائیوں کے
زُباں پر پھر ترا نام آرہا ہے
بہارو سوچ لو انجام اپنا
چمن میں پھر وہ گُلفام آرہا ہے
کسی کی اب تمنا کیوں کریں ہم
تڑپ کر بھی تو آرام آرہا ہے
قتیلؔ اک ریشمی آنچل کا سایا
غموں کی دھوپ میں کام آرہا ہے
گرمئی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیال سے ہم
شعلۂ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
جب بھی چاہیں اِک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کیلئے
آ پڑے مشکل تو نظر یں بھی چُرا لیتے ہیں لوگ
خود فریبی کی انھیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ
ہے بجا اِن کی شکایت لیکن اس کا کیا علاج
بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرا لیتے ہیں لوگ
ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کیلئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ
اس قدر نفرت ہے ان کو تیرگی کے نام سے
روزِ روشن میں بھی اب شمعیں جلا لیتے ہیں لوگ
یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آجائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اُٹھا لیتے ہیں لوگ
روشنی ہے ان کا ایماں، روک مت ان کو‘‘ قتیل’’
دل جلاتے ہیں یہ اپنا ،تیرا کیا لیتے ہیں لوگ
یارو کسی قاتل سے کبھی پیار نہ مانگو
اپنے ہی گلے کے لیئے تلوار نہ مانگو
گِر جاؤگے تم اپنے مسیحا کی نظر سے
مر کر بھی علاجِ دلِ بیمار نہ مانگو
سچ بات پہ ملتا ہے صدا زہر کا پیالہ
جینا ہے تو پھر جراتِ اظہار نہ مانگو
کُھل جائے گا اس طرح نگاہوں کا بھرم بھی
کانٹوں سے کبھی پُھول کی مہکار نہ مانگو
(قتیل شفائی)
No comments:
Post a Comment