کہاں آکے رکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا ، اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ ، جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ ، جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سن اسے بھول جا ، اسے بھول جا
دلِ بے خبر مری بات سن اسے بھول جا ، اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ، ترِی آس ، تیرے گمان میں
صبا کہ گئی مرے کان میں ، میرے ساتھ آ ، اسے بھول جا
صبا کہ گئی مرے کان میں ، میرے ساتھ آ ، اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا ، تو بھی مسکرا ، اسے بھول جا
تجھے زندگی نے بھلا دیا ، تو بھی مسکرا ، اسے بھول جا
کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں ، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا ، اسے بھول جا
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا ، اسے بھول جا
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں ، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں ، سو وہ ہو گیا ، اسے بھول جا
وہ جو درد تھا ترے بخت میں ، سو وہ ہو گیا ، اسے بھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی ، ، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا ، اسے بھول جا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا ، اسے بھول جا
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ، اسے دیکھ ، اس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ ، اسے بھول جا
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ ، اسے بھول جا
جو بساطِ جاں ہی الٹ گیا ، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا ، اسے مت بلا ، اسے بھول جا
اسے روکنے سے حصول کیا ، اسے مت بلا ، اسے بھول جا
تو یہ کس لئے شبِ ہجر کے اسے ہر ستارے میں دیکھنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم ، کوئی اور تھا ، اسے بھول جا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم ، کوئی اور تھا ، اسے بھول جا
تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ، ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
وہ تھا اک دریا وصال کا ، سو اتر گیا اسے بھول جا
وہ تھا اک دریا وصال کا ، سو اتر گیا اسے بھول جا
امجد اسلام امجد
کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کو
اگر چہ گفتگو مبہم نہیں ہے
اگر چہ گفتگو مبہم نہیں ہے
سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے
یہ بستی ہے ستم پر ور دگاں کی
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
کنارا دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے
دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا
وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے
وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے
میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں
کوئی اس زخم کا مرحم نہیں ہے
کوئی اس زخم کا مرحم نہیں ہے
جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا
بجز اک بازگشتِ غم نہیں ہے
بجز اک بازگشتِ غم نہیں ہے
امجد اسلام امجد
سارے دھنک کے رنگ تھے ۔۔۔۔۔ اُس کے لباس میں
خُوشبو کے سارے اَنگ ۔۔۔۔۔ اُسے سوچنے میں تھے
چُھو لیں اُسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
تارے بھی رات میری طرح ۔۔۔۔۔۔ مخمصے میں تھے
جگنو، ستارے ۔۔۔۔۔۔ آنکھ، صبا ۔۔۔۔۔ تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے ۔۔۔۔۔۔ کسی سلسلے میں تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
امجد اسلام امجد
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے
وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے
ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارا کہ یہ دوبارا ہے
وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارا ہے
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے
کہیں پہ ہے کوئی خُوشبو کہ جس کے ہونے کا
تمام عالم ِموجود استعارا ہے
نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے
یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم!
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے!
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے
سارے دھنک کے رنگ تھے ۔۔۔۔۔ اُس کے لباس میں
خُوشبو کے سارے اَنگ ۔۔۔۔۔ اُسے سوچنے میں تھے
چُھو لیں اُسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
تارے بھی رات میری طرح ۔۔۔۔۔۔ مخمصے میں تھے
جگنو، ستارے ۔۔۔۔۔۔ آنکھ، صبا ۔۔۔۔۔ تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے ۔۔۔۔۔۔ کسی سلسلے میں تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امجد اسلام امجد
اب تک نہ کھل سکا کہ مرے روبرو ہے کون!
اب تک نہ کھل سکا کہ مرے روبرو ہے کون!
کس سے مکالمہ ہے ! پسِ گفتگو ہے کون!
سایہ اگر ہے وہ تو ہے اُس کا بدن کہاں؟
مرکز اگر ہوں میں تو مرے چار سو ہے کون!
ہر شے کی ماہیت پہ جو کرتا ہے تو سوال
تجھ سے اگر یہ پوچھ لے کوئی کہ تو ہے کون!
اشکوں میں جھلملاتا ہوا کس کا عکس ہے
تاروں کی رہگزر میں یہ ماہ رو ہے کون!
باہر کبھی تو جھانک کے کھڑکی سے دیکھتے،
کس کو کو پکارتا ہوا یہ کُو بہ کُو ہے کون!
آنکھوں میں رات آ گئی لیکن نہیں کُھلا
میں کس کا مدعا ہوں؟ مری جستجو ہے کون!
کس کی نگاہِ لُطف نے موسم بدل دئیے
فصلِ خزاں کی راہ میں یہ مُشکبو ہے کون!
بادل کی اوٹ سے کبھی تاروں کی آڑ سے
چُھپ چُھپ کے دیکھتا ہوا یہ حیلہ جُو ہے کون!
تارے ہیں آسماں میں جیسے زمیں پہ لوگ
ہر چند ایک سے ہیں مگرہُو بہو ہے کون!
ہونا تو چاہیے کہ یہ میرا ہی عکس ہو!
لیکن یہ آئینے میں مرے روبرو ہے کون!
اس بے کنار پھیلی ہوئی کائنات میں
کس کو خبر ہے کون ہوں میں! اور تُو ہے کون
سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا ہے
دل سے بڑا جہان میں امجد عدُو ہے کون
کس سے مکالمہ ہے ! پسِ گفتگو ہے کون!
سایہ اگر ہے وہ تو ہے اُس کا بدن کہاں؟
مرکز اگر ہوں میں تو مرے چار سو ہے کون!
ہر شے کی ماہیت پہ جو کرتا ہے تو سوال
تجھ سے اگر یہ پوچھ لے کوئی کہ تو ہے کون!
اشکوں میں جھلملاتا ہوا کس کا عکس ہے
تاروں کی رہگزر میں یہ ماہ رو ہے کون!
باہر کبھی تو جھانک کے کھڑکی سے دیکھتے،
کس کو کو پکارتا ہوا یہ کُو بہ کُو ہے کون!
آنکھوں میں رات آ گئی لیکن نہیں کُھلا
میں کس کا مدعا ہوں؟ مری جستجو ہے کون!
کس کی نگاہِ لُطف نے موسم بدل دئیے
فصلِ خزاں کی راہ میں یہ مُشکبو ہے کون!
بادل کی اوٹ سے کبھی تاروں کی آڑ سے
چُھپ چُھپ کے دیکھتا ہوا یہ حیلہ جُو ہے کون!
تارے ہیں آسماں میں جیسے زمیں پہ لوگ
ہر چند ایک سے ہیں مگرہُو بہو ہے کون!
ہونا تو چاہیے کہ یہ میرا ہی عکس ہو!
لیکن یہ آئینے میں مرے روبرو ہے کون!
اس بے کنار پھیلی ہوئی کائنات میں
کس کو خبر ہے کون ہوں میں! اور تُو ہے کون
سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا ہے
دل سے بڑا جہان میں امجد عدُو ہے کون
ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
دیوار پر لکھی ہوئی تحریر جو بھی تھی
ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر جو بھی تھی
جو سامنے ہے، سب ہے یہ،اپنے کیے کا پھل
تقدیر کی تو چھوڑئیے تقدیر جو بھی تھی
آیا اور اک نگاہ میں برباد کر گیا
ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی
قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں
ملبے کے مول بک گئی تعمیر جو بھی تھی
طالب ہیں تیرے رحم کےعدل کے نہیں
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی
ہاتھوں پہ کوئی زخم نہ پیروں پہ کچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی
یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی
امجد ہماری بات وہ سُنتا تو ایک بار
آنکھوں سے اُس کو چومتے تعزیر جو بھی تھی
دیوار پر لکھی ہوئی تحریر جو بھی تھی
ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر جو بھی تھی
جو سامنے ہے، سب ہے یہ،اپنے کیے کا پھل
تقدیر کی تو چھوڑئیے تقدیر جو بھی تھی
آیا اور اک نگاہ میں برباد کر گیا
ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی
قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں
ملبے کے مول بک گئی تعمیر جو بھی تھی
طالب ہیں تیرے رحم کےعدل کے نہیں
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی
ہاتھوں پہ کوئی زخم نہ پیروں پہ کچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی
یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی
امجد ہماری بات وہ سُنتا تو ایک بار
آنکھوں سے اُس کو چومتے تعزیر جو بھی تھی
دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
لفظ اظہار کی اُلجھن میں پڑا ہے کب سے
اے کڑی چُپ کے در و بام سجانے والے
منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا ہے کب سے
چاند بھی میری طرح حُسن شناسا نکلا
اُس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے
بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے
شعبدہ بازی ٔآئینہ ٔاحساس نہ پوچھ
حیرتِ چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے
دیکھئے خون کی برسات کہاں ہوتی ہے
شہر پر چھائی ہوئی سُرخ گھٹا ہے کب سے
کور چشموں کے لئے آئینہ خانہ معلوم!
ورنہ ہر ذرہ ترا عکس نما ہے کب سے
کھوج میں کس کی بھرا شہر لگا ہے امجد
ڈھونڈتی کس کو سرِ دشت ہوا ہے کب سے
لفظ اظہار کی اُلجھن میں پڑا ہے کب سے
اے کڑی چُپ کے در و بام سجانے والے
منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا ہے کب سے
چاند بھی میری طرح حُسن شناسا نکلا
اُس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے
بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے
شعبدہ بازی ٔآئینہ ٔاحساس نہ پوچھ
حیرتِ چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے
دیکھئے خون کی برسات کہاں ہوتی ہے
شہر پر چھائی ہوئی سُرخ گھٹا ہے کب سے
کور چشموں کے لئے آئینہ خانہ معلوم!
ورنہ ہر ذرہ ترا عکس نما ہے کب سے
کھوج میں کس کی بھرا شہر لگا ہے امجد
ڈھونڈتی کس کو سرِ دشت ہوا ہے کب سے
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہےتمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے
وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے
ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارا کہ یہ دوبارا ہے
وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارا ہے
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے
کہیں پہ ہے کوئی خُوشبو کہ جس کے ہونے کا
تمام عالم ِموجود استعارا ہے
نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے
یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم!
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے!
قاصد جو تھا بہار کا نا معتبر ہُوا
قاصد جو تھا بہار کا نا معتبر ہُوا
گلشن میں بندوبست برنگِ دِگر ہُوا
خواہش جو شاخِ حرف پہ چٹکی، بِکھر گئی
آنسو جو دِل میں بند رہا، وہ گُہر ہُوا
اِک منحرف گواہ کی صُورت، چراغِ شام
اُس کی گلی میں رات مراہم سفر ہوا
آواز کیا کہ شکل بھی پہچانتا نہیں
غافل ہمارے حال سے وہ اِس قدر ہوا
عُمرِ رواں کے رخت میں ایسا نہیں کوئی
جو پَل تُمہاری یاد سے باہر، بسر ہُوا
خوشبو تھی جو خیال میں، رزقِ اَلم ہُوئی
جو رنگِ اعتبار تھا، گردِ سفر ہُوا
دل کی گلی میں حدّنظر تک تھی روشنی
کرنیں سفیر، چاند ترا نامہ بر ہُوا
تارے مِرے وکیل تھے، خوشبو تِری گواہ
کل شب عجب معاملہ، پیشِ نظر ہُوا
امجد اگر وہ دورِ جنوں جاچُکا، تو پھر
لہجے میں کیوں یہ فرق کسی نام پر ہُوا
گلشن میں بندوبست برنگِ دِگر ہُوا
خواہش جو شاخِ حرف پہ چٹکی، بِکھر گئی
آنسو جو دِل میں بند رہا، وہ گُہر ہُوا
اِک منحرف گواہ کی صُورت، چراغِ شام
اُس کی گلی میں رات مراہم سفر ہوا
آواز کیا کہ شکل بھی پہچانتا نہیں
غافل ہمارے حال سے وہ اِس قدر ہوا
عُمرِ رواں کے رخت میں ایسا نہیں کوئی
جو پَل تُمہاری یاد سے باہر، بسر ہُوا
خوشبو تھی جو خیال میں، رزقِ اَلم ہُوئی
جو رنگِ اعتبار تھا، گردِ سفر ہُوا
دل کی گلی میں حدّنظر تک تھی روشنی
کرنیں سفیر، چاند ترا نامہ بر ہُوا
تارے مِرے وکیل تھے، خوشبو تِری گواہ
کل شب عجب معاملہ، پیشِ نظر ہُوا
امجد اگر وہ دورِ جنوں جاچُکا، تو پھر
لہجے میں کیوں یہ فرق کسی نام پر ہُوا
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس مرے آئینے میں تھے
سارے دھنک کے رنگ تھے اُس کے لباس میں
خو شبو کے سارے انگ اُسے سوچنے میں تھے
ہربات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
وصل و فراق دونوں ہیں اک جیسے ناگزیر
کچھ لُطف اسکے قرب میں، کچھ فاصلے میں تھے
سیلِ زماں کی موج کا ہر وار سہہ گئے
وہ دن جو ایک ٹوٹے ہوئے رابطے میں تھےِ
غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے
ہِر پھر کے آئےنقطۂ آغاز کی طرف
جتنے سفر تھے اپنے کسی دائرے میں تھے
آندھی اُڑا کے لے گئی جس کو ابھی ابھی
منزل کے سب نشاں اُسی راستے میں تھے
چھو لیں اسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
تارے بھی رات میری طرح مخمصے میں تھے
جگنو، ستارے، آنکھ، صبا ، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کسی سلسلے میں تھے
جتنے تھے خط تمام کا تھا ایک زاویہ
پھر بھی عجیب پیچ مرے مسلے میں تھے
امجد کتابِ جان کووہ پڑھتا بھی کس طرح
لکھنے تھے جتنے لفظ ابھی حافظے میں تھے
کل شب عجیب عکس مرے آئینے میں تھے
سارے دھنک کے رنگ تھے اُس کے لباس میں
خو شبو کے سارے انگ اُسے سوچنے میں تھے
ہربات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
وصل و فراق دونوں ہیں اک جیسے ناگزیر
کچھ لُطف اسکے قرب میں، کچھ فاصلے میں تھے
سیلِ زماں کی موج کا ہر وار سہہ گئے
وہ دن جو ایک ٹوٹے ہوئے رابطے میں تھےِ
غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے
ہِر پھر کے آئےنقطۂ آغاز کی طرف
جتنے سفر تھے اپنے کسی دائرے میں تھے
آندھی اُڑا کے لے گئی جس کو ابھی ابھی
منزل کے سب نشاں اُسی راستے میں تھے
چھو لیں اسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
تارے بھی رات میری طرح مخمصے میں تھے
جگنو، ستارے، آنکھ، صبا ، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کسی سلسلے میں تھے
جتنے تھے خط تمام کا تھا ایک زاویہ
پھر بھی عجیب پیچ مرے مسلے میں تھے
امجد کتابِ جان کووہ پڑھتا بھی کس طرح
لکھنے تھے جتنے لفظ ابھی حافظے میں تھے
یہ گردبادِ تمنا میں گھومتے ہوئے دن
یہ گردبادِ تمنا میں گھومتے ہوئے دن
کہاں پہ جا کے رُکیں گے یہ بھاگتے ہوئے دن
غروب ہوتے گئے رات کے اندھیروں میں
نویدِ امن کے سورج کو ڈھونڈتے ہوئے دن
نجانے کون خلا کے یہ استعارے ہیں
تمہارے ہجر کی گلیوں میں گونجتے ہوئے دن
نہ آپ چلتے ، نہ دیتے ہیں راستہ ہم کو
تھکی تھکی سی یہ شامیں یہ اونگھتے ہوئے دن
پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات
گزرگیا ہے یہی بات سوچتے دن
تمام عمر مرے ساتھ ساتھ چلتے رہے
تمہی کو ڈھونڈتے تم کو پکارتے ہوئے دن
ہر ایک رات جو تعمیر پھر سے ہوتی ہے
کٹے گا پھر وہی دیوار چاٹتے ہوئے دن
مرے قریب سے گزرے ہیں بار ہا امجد
کسی کے وصل کے وعدے کو دیکھتے ہوئے دن
کہاں پہ جا کے رُکیں گے یہ بھاگتے ہوئے دن
غروب ہوتے گئے رات کے اندھیروں میں
نویدِ امن کے سورج کو ڈھونڈتے ہوئے دن
نجانے کون خلا کے یہ استعارے ہیں
تمہارے ہجر کی گلیوں میں گونجتے ہوئے دن
نہ آپ چلتے ، نہ دیتے ہیں راستہ ہم کو
تھکی تھکی سی یہ شامیں یہ اونگھتے ہوئے دن
پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات
گزرگیا ہے یہی بات سوچتے دن
تمام عمر مرے ساتھ ساتھ چلتے رہے
تمہی کو ڈھونڈتے تم کو پکارتے ہوئے دن
ہر ایک رات جو تعمیر پھر سے ہوتی ہے
کٹے گا پھر وہی دیوار چاٹتے ہوئے دن
مرے قریب سے گزرے ہیں بار ہا امجد
کسی کے وصل کے وعدے کو دیکھتے ہوئے دن
تیری زد سے نکلنا چاہتا ہے
تیری زد سے نکلنا چاہتا ہے
یہ دریا رخ بدلنا چاہتا ہے
وہ سپنا جس کی صورت ہی نہیں ہے
میری آنکھوں میں پلنا چاہتا ہے
دِلوں کی ماندگی پہ کیا تعجب
کہ سورج بھی تو ڈھلنا چاہتا ہے
نشستِ درد بدلی ہے تو اب دل
ذرا پہلو بدلنا چاہتا ہے
ہوا ہے بند اور شعلہ وفا کا
بہت ہی تیز جلنا چاہتا ہے
یہ دل اس گرد بادِ زندگی میں
بس اک لمحہ سنبھلنا چاہتا ہے
مجہے بھی سامنا ہے کربلا کا
میرا سر بھی اچھلنا چاہتا ہے
نہیں ہیں ترجمانِ غم یہ آنسو
یہ پانی اب ابلنا چاہتا ہے
گزشتہ صحبتوں کا ایک لشکر
مرے ہمراہ چلنا چاہتا ہے
اُن آنکھوں کی ادا کہتی ہے امجد
کوئی پتھر پگھلنا چاہتا ہے
یہ دریا رخ بدلنا چاہتا ہے
وہ سپنا جس کی صورت ہی نہیں ہے
میری آنکھوں میں پلنا چاہتا ہے
دِلوں کی ماندگی پہ کیا تعجب
کہ سورج بھی تو ڈھلنا چاہتا ہے
نشستِ درد بدلی ہے تو اب دل
ذرا پہلو بدلنا چاہتا ہے
ہوا ہے بند اور شعلہ وفا کا
بہت ہی تیز جلنا چاہتا ہے
یہ دل اس گرد بادِ زندگی میں
بس اک لمحہ سنبھلنا چاہتا ہے
مجہے بھی سامنا ہے کربلا کا
میرا سر بھی اچھلنا چاہتا ہے
نہیں ہیں ترجمانِ غم یہ آنسو
یہ پانی اب ابلنا چاہتا ہے
گزشتہ صحبتوں کا ایک لشکر
مرے ہمراہ چلنا چاہتا ہے
اُن آنکھوں کی ادا کہتی ہے امجد
کوئی پتھر پگھلنا چاہتا ہے
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے
فصل گل آئی پھر اک بار اسیران ِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے
ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے
عُمر گزری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس اُفق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے
کس اُفق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے
کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یوں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے
خواب یوں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے
دل نے اک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
توُنے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے
توُنے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے
دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلے
ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلے
میں نے امجد اسے بے واسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے
بهت خوب وہ میرے نصیب کی بارشیں کسی اور چهت پے برس کئں
ReplyDelete