Wednesday, 10 September 2014

ساحر لدھیانوی


ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر۔8 مارچ 1921 کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ خالصہ سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کردیا۔ امرتا پریتم کے عشق میں کالج سے نکالے گئے اور لاہور آگئے۔ یہاں ترقی پسند نظریات کی بدولت قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں ان کے وارنٹ جاری ہوئے جس کے بعد وہ ہندوستان چلے گئے



 کب نام و نسَب کا آدمی ہُوں
مَیں صِرف ادب کا آدمی ہُوں

لینا دینا نہیں کسی سے
مَیں اَور ہی ڈھب کا آدمی ہُوں

رہتا ہُوں فسُردہ دِل ہمیشہ
مَیں شَہر ِ طرَب کا آدمی ہُوں

واقِف ہیں جو اَہل ِ شوق مجھ سے
کہتے ہیں ' غضب کا آدمی ہُوں

جب پہلا گناہ کِیا تھا مَیں نے
ساحِر ! مَیں تب کا آدمی ہُوں

Tuesday, 9 September 2014

نوشی گیلانی


اب یہ بات مانی ہے 
وصل رائیگانی ہے
اس کی دد آنکھوں میں
ہجر کی کہانی ہے
جیت جس کسی کی ہو 
ہم نے ہار مانی ہے
چھوڑیاں بکھرنے کی
رسم یہ پرانی ہے
عمر کے جزیرے پر 
غم کی حکمرانی ہے
مل گیا تو وحشت کی 
داستاں سنانی ہے
ہجرتوں کے سحرا کی 
دل نے خاک چھانی ہے


صبح نہیں ہو گی کبھی ، دل میں بٹھالےتو بھی 
خود کو برباد نہ کر جاگنے والے تو بھی

میں کہاں تک تیری یادوں کےتعاقب میں رہوں
میں جو گم ہوں تو کبھی مرا پتہ لے تو بھی

اک شبستانِ رفاقت ہو ضروری تو نہیں
دشت تنہائی میں آ جشن منالے تو بھی

لفظ خود اپنے معانی کو طلب کرتا ہے
دل کی دیوار پہ اک نقش بنالے تو بھی

ٹوٹ جائیں نہ رگیں ضبط مسلسل سےکہیں
چھپ کےتنہائی میں کچھ اشک بہالے تو بھی

عہد حاضر میں تو پندار کی قیمت ہی نہیں
کوئی تیشہ نہ اٹھا ، کاسہ اٹھا لے تو بھی

میں نے اک عمر کے خوابوں کو تیرے نام کیا
اپنے احساس کو کر میرے حوالے تو بھی

میں بھی دل میں تری تصویر چھپائے رکھوں
اپنے ہونٹوں سے مرا نام مٹالے تو بھی



بدن کی قید سے نکلیں تو اُس نگر جائیں
بدن کی قید سے نکلیں تو اُس نگر جائیں

جہاں خُدا سے کسی شب مکالمہ ہوگا
جہاں پہ رُوح کا بھی کوئی حق ادا ہوگا

نہ دل کو تنگ کرے گی حصول کی خُواہش
نہ کوئی خد ہِ لاحاصلی ستاۓ گا

ہمیں قُبول نہ ہوگی صداۓ نوحہ گری
کہ پھر وصول نہ ہوگی شکستِ سادہ دلی

نہ مرحلے وہ مشقت کے پیشِ جاں ہونگے
کہ جن کے خوف سے لب ہنسنا بھول جاتے ہیں

نہ ایسی شب کی مُسافت کا سامنا ہوگا
جہاں پہ کوئی چراغِ وفا نہیں جلتا

لبوں کی شاخ پہ حرفِ دُعا نہیں کِھلتا
کہیں پہ کوئی مزاج آشنا نہیں ملتا

عذابِ ترک و طلب سے بھی اب مُکر جائیں
زمین کی قید سے نکلیں تو اُس نگر جائیں

جہاں خُدا سے کسی دن مکالمہ ہوگا
جہاں پہ رُوح کا بھی کوئی حق ادا ہوگ



لاکھ ضبط خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے
بے پناہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا
فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اسکی آہٹ پر
بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خوشبوؤں کو چھونے کی
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاؤں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
آنسوؤں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجر کے مسافر کے
پاؤں تک بھی چھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے ؟

نوشی گیلانی



تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا
یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرہ نہیں ملتا
ہر اک تدبیر اپنی رائیگاں ٹھہری محبت میں
کسی بھی خواب کو تعبیر کا رستہ نہیں ملتا
بھلا اس کے دکھوں کی رات کا کوئی مداوا ہے
وہ ماں جس کو کبھی کھویا ہوا بچہ نہیں ملتا
زمانے کو قرینے سے وہ اپنے ساتھ رکھتا ہے
مگر میرے لیے اس کو کوئی لمحہ نہیں ملتا
مسافت میں دعائے ابر ان کا ساتھ دیتی ہے
جنہیں صحرا کے دامن میں کوئی دریا نہیں ملتا
جہاں ظلمت رگوں میں اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے
اسی تاریک رستے پر دیا جلتا نہیں ملتا



کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے
مرے بازو ، مری آنکھیں، مرا چہرہ لا دے

ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے
اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو مرا صحرا لا دے

کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں
مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے

جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرہ تو مرے شہر میں ایسا لا دے

کشتئ جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے
اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے

نوشی گیلانی



محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصے میں آئی ہیں، وہ اذیتیں بھی شمار کرنا
جلاۓ رکھوں گی صبح تک تمہارے رستے میں اپنی آنکھیں
مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائیں تو بارشیں بھی شمار کرنا
جو حرف لوہے وفا پہ لکھے ہوۓ ہیں ان کو بھی دیکھ لینا
جو رائیگاں ہوگئیں وہ ساری عبارتیں بھی شمار کرنا
یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئ ہیں
جب ان کی یخ بستگی پرکھنا، تمازتیں بھی شمار کرنا
تم اپنی مجبوریوں کے قصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے
جو میری آنکھوں میں جل بُجھی ہیں، وہ خواہشیں بھی شمار کرنا



ڈھونڈنے جس میں زندگی نکلی
وہ اُسی شخص کی گلی نکلی

وہ جو لگتی تھی کانچ کی گڑیا
ضرب پڑنے پہ آھنی نکلی

اُس حویلی میں چاند ڈھلنے پر
ھر دریچے سے روشنی نکلی

وہ ھَوا تو نہیں تھی لڑکی تھی
کس لیٔےاتنی سر پھری نکلی

وہ تِرے آسماں کا کیا کرتی
جس کی مٹی سے دوستی نکلی

تیرے لہجے میں کیا نہیں تھا مگر
صرف سچ کی ذرا کمی نکل

نوشی گیلانی




مَزاروں پر محبت جاودانی ، سُن رھے تھے
کبوتر کہہ رھےتھے ھم کہانی سُن رھے تھے

مِری گُڑیا ، تِرے جگنو ، ھماری ما ؤں کے غم
ھم اِک دُوجے سے بچپن کی کہانی سُن رھے تھے

گزرتی عمر کے ھر ایک لمحے کی زبانی
محبت رایٔیگانی ، رایٔگانی سُن رھے تھے

کبھی صحرا کے سینے پر بِکھرتا ھے تو، کیسے
سنہرے گیت گاتا ھے یہ پانی ، سُن رھے تھے

مزاجِ یار سے ایسی شناسا یٔ غضب تھی
ھم اُس کی گفتگو میں بے دھیانی سُن رھے تھے

ھتھیلی پر رکھے پُھولوں پہ جو آنسو گرے تھے
ھم اُن میں نرم گیتوں کی روانی ، سُن رھے تھے

نوشی گیلانی





عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرضِ سوال سے پہلے
ھجر کی پوری رات آتی ھے صبحِ وصال سےپہلے

دِل کا کیا ھے دِل نے کتنے منظر دیکھے لیکن
آنکھیں پاگل ھو جاتی ھیں ایک خیال سے پہلے

کس نے ریت اُڑاتی شب میں آنکھیں کھول کے رکھیں
کویٔ ایک مثال تو دو نا ! اُس کی مثال سے پہلے

کارِ محبت ایک سفر ھے اس میں آ جاتا ھے
ایک زوال آثار سا رستہ بابِ کمال سے پہلے

عشق میں ریشم جیسے وعددوں اور خوابوں کا رستیہ
جتنا ممکن ھو طے کر لیں گردِ ملال سے پہلے


نوشی گیلانی

مِرے ساتھی
مِری یہ رُوح میرے جسم سے پرواز کر جائے
تو لوٹ آنا

مِری نے خواب راتوں کے عذابوں پر
سسکتے شہر میں تُم بھی
ذرا سی دیر کو رُکنا

مِرے بے نُور ہونٹوں کی دُعاؤں پر
تُم اپنی سرد پیشانی کا پتھر رکھ کے رو دینا

بس اِتنی بات کہہ دینا
’’مجھے تُم سے محّبت ہے ‘‘






مجھ کو رسوا سرِ محفل تو نہ کروایا کرے
کاش آنسو مری آنکھو میں ہے رہ جایا کرے
اے ہوا میں نے تو بس اس کا پتہ بوچھا تھا 
اب کہانی تو نہ ہر بات کی بن جایا کرے
بس بہت دیکھ لئے خواب سوہانے دن کے 
اب وہ باتوں کی رفاقت سے نہ بہلایا کرے
اک مصیبت تو نہ ٹوٹی سو اب اس دل سے 
جس قیامت نے گزرنا ہے گزرجایا کرے
دل نے اب سوچ لیا ہے کہ یہ ظالم دنیا
جو بھی کرنا ہے کرے مجھ کو نہ الجھایا کرے
جس کے خوابوں کو میں آنکھوں مین سجا کر رکھوں
اس کی خوشبو کبھی مجھ کو بھی تو مہکایا کرے
نوشی جی