Sunday, 4 February 2018

تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کے دیکھ لیتا ہوں


تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کے دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں


ہوائیں جن کی اندھی کھڑکیوں پر سر پٹکتی ہیں
میں ان کمروں میں پھر شمیں جلا کر دیکھ لیتا ہوں


عجب کیا اس قرینے سے کوئی صورت نکل آئے
تری باتوں کو خوابوں سے ملا کر دیکھ لیتا ہوں


سحر دم کرچیاں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی ملتی ہیں
تو بستر جھاڑ کر چادر ہٹا کر دیکھ لیتا ہوں


بہت دل کو دکھاتا ہے کبھی جب دردِ مہجوری
تری یادوں کی جانب مسکرا کر دیکھ لیتا ہوں


اڑا کر رنگ کچھ ہونٹوں سے کچھ آنکھوں سے کچھ دل سے
گئے لمحوں کو تصویریں بنا کر دیکھ لیتا ہوں


نہیں ہو تم بھی وہ اب مجھ سے یارو کیا چھپاؤ گے
ہوا کی سمت کو مٹی اڑا کر دیکھ لیتا ہوں


سنا ہے بے نیازی ہی علاجِ نا امیدی ہے
یہ نسخہ بھی کوئی دن آزما کر دیکھ لیتا ہوں


محبت مرگئی مشتاقؔ لیکن تم نہ مانو گے
میں یہ افواہ بھی تم کو سنا کر دیکھ لیتا ہوں


احمد مشتاقؔ

No comments:

Post a Comment