رُوپ نگر کے ناکے پر
یُونہی تو نہیں دَشت میں پہنچے
یُونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے
جنگل جنگل پُھول میاں
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے
جگ میں ہوئے ہو رُسوا کبھی
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پُوچھیں
باقی بات فضُول میاں
سُن تو لیا کسی نار کی خاطر
کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قِصّے کو
اب دیتے کیوں ہو طُول میاں
اِنشاؔ جی کیا عُذر ہے تم کو
نقد دل و جاں نذر کرو
رُوپ نگر کے ناکے پر
یہ لگتا ہے محصُول میاں
ابن انشاء
No comments:
Post a Comment