Sunday, 4 February 2018

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور

مرزا غالب

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور 
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور


مٹ جائے گا سر گر ترا پتھر نہ گھسے گا 
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور


آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں 
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور


جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے 
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور


ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف 
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور


تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے 
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور


تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے 
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور


مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیر سے لڑائی 
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور


گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش 
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور


ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ 
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

No comments:

Post a Comment