Monday, 5 February 2018

زلف کو ابر کا ٹکڑا نہیں لکھا میں نے

زلف کو ابر کا ٹکڑا نہیں لکھا میں نے
آج تک کوئی قصیدہ نہیں لکھا میں نے
جب مخاطب کیا قاتل کو تو قاتل لکھا
لکھنوی بن کے مسیحا نہیں لکھا میں نے
میں نے لکھا ہے اسے مریم و سیتا کی طرح
جسم کو اس کے اجنتا نہیں لکھا میں نے
کبھی نقاش بتایا کبھی معمار کہا
دست فنکار کو کاسہ نہیں لکھا میں نے
تو مرے پاس تھا یا تیری پرانی یادیں
کوئی اک شعر بھی تنہا نہیں لکھا میں نے
نیند ٹوٹی کہ یہ ظالم مجھے مل جاتی ہے
زندگی کو کبھی سپنا نہیں لکھا میں نے
میرا ہر شعر حقیقت کی ہے زندہ تصویر
اپنے اشعار میں قصہ نہیں لکھا میں نے
انور جلال پوری

Sunday, 4 February 2018

تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی 
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے 
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی 
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں 
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی

میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا 
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا 
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی 
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے 
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے 
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں 
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار 
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں 
سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور 
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی 
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل 
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود 
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل 
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق 
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر 
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں


کشور ناہید
عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں 
ساحل ساحل جذبے تھے اور دریا دریا پہنچی میں


شہر میں اس کے نام کے جتنے شخص تھے سب ہی اچھے تھے 
صبح سفر تو دھند بہت تھی دھوپیں بن کر نکلی میں


اس کی ہتھیلی کے دامن میں سارے موسم سمٹے تھے 
اس کے ہاتھ میں جاگی میں اور اس کے ہاتھ سے اجلی میں


اک مٹھی تاریکی میں تھا اک مٹھی سے بڑھ کر پیار 
لمس کے جگنو پلو باندھے زینہ زینہ اتری میں


اس کے آنگن میں کھلتا تھا شہر مراد کا دروازہ 
کنویں کے پاس سے خالی گاگر ہاتھ میں لے کر پلٹی میں


میں نے جو سوچا تھا یوں تو اس نے بھی وہی سوچا تھا 
دن نکلا تو وہ بھی نہیں تھا اور موجود نہیں تھی میں


لمحہ لمحہ جاں پگھلے گی قطرہ قطرہ شب ہوگی 
اپنے ہاتھ لرزتے دیکھے اپنے آپ ہی سنبھلی میں

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور

مرزا غالب

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور 
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور


مٹ جائے گا سر گر ترا پتھر نہ گھسے گا 
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور


آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں 
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور


جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے 
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور


ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف 
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور


تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے 
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور


تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے 
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور


مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیر سے لڑائی 
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور


گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش 
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور


ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ 
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

ہم تو ہیں پردیس میں دیس میں نکلا ہوگا چاند


 ہم تو ہیں پردیس میں دیس میں نکلا ہوگا چاند
اپنی رات کی چھت پر کتنا تنہا ہوگا چاند


جن آنکھوں میں کاجل بن کر تیری کالی رات
ان آنکھوں میں آنسو کا اک قطرہ ہوگا چاند


رات نے ایسا پینچ لگایا ٹوٹی ہاتھ سے ڈور
آنگن والے نیم میں جا کر اٹکا ہوگا چاند


چاند بنا ہر دن یوں بیتا جیسے یگ بیتے
میرے بنا کس حال میں ہوگا کیسا ہوگا چاند
.....
راہی معصوم رضا

تم سے راہ و رسم بڑھا کر دیوانے کہلائیں کیوں


تم سے راہ و رسم بڑھا کر دیوانے کہلائیں کیوں
جن گلیوں میں پتھر برسیں ان گلیوں میں جائیں کیوں


ویسے ہی تاریک بہت ہیں لمحے غم کی راتوں کے
پھر میرے خوابوں میں یارو وہ گیسو لہرائیں کیوں


مجبوروں کی اس بستی میں کس سے پوچھیں کون بتائے؟ 
اپنا محلہ بھول گئی ہیں بے چاری لیلائیں کیوں


مستقبل سے آس بہت ہے مستقبل کیسا بھی ہو
ماضی کس کے کام آیا ہے ماضی کو دہرائیں کیوں


ہاں! ہم نے بھی آج کسی کا نازک سا دل توڑا ہے
شہرِ وفا کی رسم یہی ہے ہم اس پر شرمائیں کیوں


کھڑکی کھڑکی سناٹا ہے، چلمن چلمن تنہائی
چاہت کی محفل میں اب ہم نقدِ دل و جاں لائیں کیوں


وعدوں کے جنگل میں آزر ہم تو برسوں بھٹکے ہیں 
آپ کریں کیوں دل پہ بھروسہ آپ یہ دھوکہ کھائیں کیوں

(کفیل آزر)

تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کے دیکھ لیتا ہوں


تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کے دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں


ہوائیں جن کی اندھی کھڑکیوں پر سر پٹکتی ہیں
میں ان کمروں میں پھر شمیں جلا کر دیکھ لیتا ہوں


عجب کیا اس قرینے سے کوئی صورت نکل آئے
تری باتوں کو خوابوں سے ملا کر دیکھ لیتا ہوں


سحر دم کرچیاں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی ملتی ہیں
تو بستر جھاڑ کر چادر ہٹا کر دیکھ لیتا ہوں


بہت دل کو دکھاتا ہے کبھی جب دردِ مہجوری
تری یادوں کی جانب مسکرا کر دیکھ لیتا ہوں


اڑا کر رنگ کچھ ہونٹوں سے کچھ آنکھوں سے کچھ دل سے
گئے لمحوں کو تصویریں بنا کر دیکھ لیتا ہوں


نہیں ہو تم بھی وہ اب مجھ سے یارو کیا چھپاؤ گے
ہوا کی سمت کو مٹی اڑا کر دیکھ لیتا ہوں


سنا ہے بے نیازی ہی علاجِ نا امیدی ہے
یہ نسخہ بھی کوئی دن آزما کر دیکھ لیتا ہوں


محبت مرگئی مشتاقؔ لیکن تم نہ مانو گے
میں یہ افواہ بھی تم کو سنا کر دیکھ لیتا ہوں


احمد مشتاقؔ

ابن انشاء



رُوپ نگر کے ناکے پر
یُونہی تو نہیں دَشت میں پہنچے
یُونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے
جنگل جنگل پُھول میاں
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے
جگ میں ہوئے ہو رُسوا کبھی
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پُوچھیں
باقی بات فضُول میاں
سُن تو لیا کسی نار کی خاطر
کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قِصّے کو
اب دیتے کیوں ہو طُول میاں
اِنشاؔ جی کیا عُذر ہے تم کو
نقد دل و جاں نذر کرو
رُوپ نگر کے ناکے پر
یہ لگتا ہے محصُول میاں
ابن انشاء